روپا دیوی
روپا دیوی کا تعلق جنوبی بھارت کی ریاست تمل ناڈو سے کے ڈنڈیگل سے ہے۔ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کی شہرت کی اصل وجہ فیفا کی جانب سے اس کا بھارت سے پہلی خاتون ریفری چنا جانا ہے۔
فٹ بال سے شغف
[ترمیم]روپا چھٹی جماعت سے سینٹ جوزف اسکول ڈنڈیگل کے لیے فٹ بال کھیل رہی ہے۔ وہ آگے چل کر اپنے اسکول کے لیے اور ضلعی ٹورنمنٹوں کے لیے کھیلنے لگی۔[1]
ڈنڈیگل فٹ بال فیڈریشن
[ترمیم]روپا 2006ء میں ڈنڈیگل فٹ بال فیڈریشن میں شامل ہوئی۔ اس شمولیت کا اہم فائدہ یہ تھا کہ یہ ادارہ اسے مختلف قومی مقابلوں میں شرکت اور پڑھائی کے لیے امداد فراہم کرتا تھا۔[1]
اعلٰی تعلیم
[ترمیم]روپا نے جی تی این ڈگری کالج، ڈنڈیگل سے کیمیا کا مطالعہ کیا اور جسمانی تعلیم (Physical Education) میں اناملائی یونیورسٹی، چدمبرم سے ایک اور ڈگری حاصل کی۔ وہ فٹ بال جامعاتی اور قومی مقابلوں میں حصہ لیتی رہی۔[1]
تدریسی ملازمت اور استعفا
[ترمیم]بی ایڈ کی تکمیل کے بعد وہ ڈنڈیگل کے ایک اسکول میں برسرخدمت ہو گئی۔ تاہم وہ بعد میں اپنا استعفا بھی پیش کر دی کیونکہ اسکول کا انتظامیہ اسے مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔[1]
خاندانی مسائل اور ریفری کا کریئر
[ترمیم]2010ء میں روپا کی ماں قلب پر حملے کی وجہ سے گذر گئی اور اس کے اگلے ہی سال اس کا باپ فشارِ دم (بی پی) کی نذر ہو گیا۔ اس کی ایک بہن کی شادی ہو چکی تھی جبکہ بھائی کام کی تلاش میں کہیں اور چلا گیا تھا۔ اس طرح وہ بالکل اکیلی ہو گئی۔ 2010ء سے اگلے دو سال تک کوئی خاص مقابلے نہیں تھے۔ تجربہ کار کھیل کے ریفریوں نے اسے کھیل کی باقاعدہ اعلٰی تربیت کا مشورہ دیا۔ وہ 2012ء میں ایک ریفری ڈیولپمنٹ اسکول میں شریک ہوئی اور قومی سب جونئر اور جونئر سطح کے مقابلوں کی اگلے سال سے نگرانی بھی کرنے لگی۔ وہ آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن کے کچھ امتحانات میں بھی شریک ہوئی۔[1]
قومی سے بین الاقوامی کریئر
[ترمیم]روپا کئی قومی میچوں میں ریفری رہی ہے۔ وہ مغربی ایشیا کی سری لنکا میں منعقدہ ایک ٹورنمنٹ کی ریفری رہی اور خواتین کے جبلپور میں منعقدہ ایک مقابلے میں کلیدی ریفری بھی رہی ہے۔ تین سال کے اس تجربے کے بعد وہ فیفا کے امتحانات میں 2015ء میں حاضر ہوئی۔ یہاں بھی وہ کامیاب ہوئی اور بین الاقوامی ریفری کے طور پر منتخب ہوئی۔[1]
مستقبل کی غیریقینی
[ترمیم]ان تمام کامیابیوں کے باوجود روپا خود کے لیے کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں بنا پائی۔ وہ 2014ء میں موریوں کے معائنہ کار (sanitary inspector) کا امتحان کامیاب کر چکی ہے، تاہم ریاستی حکومت پچھلے دو سال سے ریاستی حکومت کسی کی بھرتی نہیں کر رہی ہے حالانکہ مخلوعہ جائدادیں موجود ہیں۔[1]